خیرپور کی وہ سردیاں صرف ایک موسم نہیں تھیں، وہ ایک مکمل تجربہ تھیں
آنکھیں بند کریں اور تصور کریں: لقمان خیرپور کی ایک سرد دسمبر کی رات۔ گلیاں خاموش ہیں، جیسے کسی امن کے کمبل میں لپٹی ہوئی ہوں، لیکن ان میں ایک عجیب سی گرمی ہے، ایک زندگی ہے۔ ہر گلی اپنی کہانی سناتی ہے، جہاں دوستوں کا ایک حلقہ کسی خاندان کی طرح بیٹھا ہوتا۔ ان کی ہنسی اور باتیں سرد ہوا میں تحلیل ہو رہی ہوتیں۔ یہ گلیاں صرف راستے نہیں تھیں؛ یہ کھلے کمرے تھے، جہاں ہر موڑ پر اپنائیت اور ہر دل میں جگہ ملتی تھی۔
وہ شامیں آج بھی یاد ہیں۔ دوست ایک ساتھ بیٹھتے، قریب قریب، جیسے ان کے دلوں کی گرمی سردی کو شکست دے رہی ہو۔ کسی کو دولت یا حیثیت کی فکر نہیں تھی؛ اہمیت صرف دوستی کی پاکیزگی کی تھی۔ دور سے ایک آواز گونجتی، رات کے سکوت کو توڑتی—ایک لڑکا گرم انڈے، مونگ پھلی اور خشک میوہ جات بیچ رہا ہوتا۔ اس کی ٹوکری، بھاپ اور خوشبو سے بھری ہوئی، کسی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ لے آتی۔ وہ صرف ایک بیچنے والا نہیں تھا؛ وہ اس منظر کا حصہ تھا، سرد راتوں کی کہانی کا ایک کردار۔
دادا عالم کی بیٹھک: علم کا گہوارہ
لقمان خیرپور کی سردیوں میں دادا عالم کی بیٹھک ایک ایسی جگہ تھی جو صرف ایک کمرہ نہیں بلکہ علم، مکالمے اور تخلیق کا گہوارہ تھی۔ یہاں شام کے وقت بڑے ادیب، شاعر، دانشور اور سیاستدان جمع ہوتے تھے۔ وہ ادب، شاعری، اور فلسفے پر بات کرتے، لیکن یہ گفتگو صرف یہیں محدود نہیں رہتی تھی۔ سائنس، سیاست، فلموں، اور دنیا کے بدلتے حالات پر بھی تبصرے ہوتے تھے۔ ہر موضوع کو کھلے دل سے سنا اور سمجھا جاتا تھا۔
رات کے ان لمحات میں، لگتا تھا کہ دنیا کی ہر مشکل کا حل ان ہی چار دیواری میں مل جائے گا۔ اور اگر شام کو یہ جگہ علم کے بڑے ستاروں کی تھی، تو دن اور دیر رات یہ بیٹھک نوجوانوں کا ٹھکانہ بن جاتی۔ یہاں دوستوں کے ہنسی مذاق، خوابوں کی باتیں، اور مستقبل کی امیدیں گونجتی تھیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں علم اور دوستی کی روشنی ایک ساتھ چمکتی تھی۔
لقمان کی گلیوں میں کھیلوں کا جنون
لقمان صرف علم کا شہر نہیں تھا؛ یہ کھیلوں کا بھی گڑھ تھا۔ خاص طور پر لقمان کے علاقے میں، جہاں تقریباً ہر گلی کی اپنی ایک کرکٹ یا فٹبال ٹیم ہوتی تھی۔ دن ہو یا شام، گلیوں اور میدانوں میں کھیلتے بچوں اور نوجوانوں کی گہما گہمی دیکھنے کے قابل ہوتی۔ کسی ٹیم کے جیتنے پر جشن منانے کا انداز ہو یا ہارنے والوں کا اگلے میچ کی تیاری کا جذبہ، یہ سب لمحے خیرپور کی زندگی کا حصہ تھے۔
چھوٹے میدانوں میں کرکٹ کے شور، گیند کے بلے سے ٹکرانے کی آواز، اور گلیوں میں فٹبال کے کھیل نے وہ دن کبھی بور ہونے نہیں دیے۔ ہر گلی اپنی ایک الگ پہچان رکھتی تھی۔ اور جب سردیوں کی راتوں میں میچ ختم ہوتا تو وہی کھلاڑی اور دوست گرم چائے یا مونگ پھلی کے ساتھ خوش گپیاں کرتے۔
بارش اور زمین کی خوشبو
بارش کے بعد زمین کی مٹی کی وہ خوشبو آج بھی دل میں بسی ہوئی ہے۔ وہ خوشبو، جو سرد ہوا کے ساتھ مل کر خیرپور کو ایک اور ہی دنیا میں لے جاتی تھی۔ گلیوں میں بارش کے بعد کی خاموشی، اور چائے کے اسٹال سے اٹھتی بھاپ، ان سب لمحوں کی یاد آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔
خیرپور کی سردیوں کی راتیں
خیرپور کی وہ سردیاں صرف ایک موسم نہیں تھیں، وہ ایک مکمل تجربہ تھیں۔ دوستوں کی محفلیں، علم کے چرچے، کھیل کے میدانوں کی گونج، اور گرم چائے کی خوشبو، یہ سب ایک ساتھ مل کر خیرپور کو مکمل کرتے تھے۔
خیرپور صرف ایک شہر نہیں تھا؛ یہ ایک دنیا تھی، جہاں ہر گلی میں ایک کہانی تھی، ہر بیٹھک میں ایک فکر تھی، اور ہر میدان میں ایک جذبہ تھا۔ اب بھی جب دسمبر آتا ہے، دل خیرپور کی گلیوں اور میدانوں میں واپس لوٹ جاتا ہے۔ وہ شہر، وہ لوگ، اور وہ لمحات دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ خیرپور، تُو میرے وجود کا حصہ ہے، اور ہر سرد دسمبر میں، میں تیرے ساتھ ہی جیتا ہوں۔