انتھونی فلو، جو کبھی الحاد کے بڑے حامی تھے، ڈی این اے کی پیچیدگی کو دیکھ کر خدا کے وجود پر ایمان لے آئے اور دنیا کو حیران کر دیا۔
انتھونی فلو، جو دنیا بھر میں اپنے الحادی خیالات کے لیے جانے جاتے تھے، نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں ایک ایسا اعلان کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ کئی دہائیوں تک وہ یہ مانتے رہے کہ مافوق الفطرت یا خدا کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور سب کچھ محض اتفاق ہے۔ مگر 2004 کے بعد کچھ سائنسی دریافتوں نے ان کا نقطہ نظر بدل دیا، اور انہوں نے خدا کے وجود پر یقین کرنا شروع کر دیا۔
یہ تبدیلی ان کے لیے ایک بڑی فکری جدوجہد تھی، اور اس کا اعلان انہوں نے 81 سال کی عمر میں کیا۔ فلو کا کہنا تھا کہ جدید سائنسی تحقیق، خاص طور پر ڈی این اے کی پیچیدگی، اس بات کا ثبوت ہے کہ زندگی کا آغاز محض اتفاق سے نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے پیچھے کسی ذہین تخلیق کار کا ہاتھ ہونا ضروری ہے۔
فلو کے مطابق، ڈی این اے میں موجود معلومات اتنی پیچیدہ ہیں کہ اسے کسی بھی قدرتی عمل سے پیدا کرنا ممکن نہیں۔ ان کے لیے یہ ثابت ہو چکا تھا کہ زندگی کے اتنے پیچیدہ نظام کا وجود کسی خاص ذہن کا نتیجہ ہے، نہ کہ محض ایک اتفاق۔
"اب میں اپنے پرانے خیالات پر پچھتا رہا ہوں، اور جو غلط فہمی پھیلائی، اس پر افسوس کرتا ہوں”، فلو نے اپنے نئے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ یہ الفاظ اس بات کی علامت تھے کہ انسان کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور سچائی کی طرف قدم بڑھانے میں کبھی بھی دیر نہیں ہوتی۔
انتھونی فلو کی یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر سچ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خیالات بدلنے کی ضرورت ہو، تو ہمیں کبھی بھی اسے قبول کرنے میں جھجھک نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا سفر، الحاد سے ایمان تک، ایک زبردست مثال ہے کہ سچائی کا راستہ کھلا ہوتا ہے، چاہے انسان کی عمر کتنی بھی ہو۔
یہ کہانی ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ علم کی دنیا میں کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہے، اور ہمیں نئے حقائق کو اپنے خیالات کے مطابق اپنانا چاہیے تاکہ ہم ہمیشہ ترقی کی راہ پر چل سکیں۔
4o mini




COMMENTS